جون،10 کی صبح کو خبر آئی کہ دادی اماں فوت ہو گئی ہيں۔ اور ہم ضروری تیاری کے بعد سیدھا گاؤں روانہ ہو گۓ۔ اس پورے سفر کے دوران میری آنکھ سے ایک آنسو بھی روائتا یا اصولا نہیں ٹپکا۔ حالانکہ ایسے موقوں پر فرط جذبات کا سمندر ٹھاٹھ نہ مارے تو معاشرے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ليۓ دو چار قطرے بہانے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہےتاکہ معاشرے کو مرنے والے کےساتھ جذباتی لگاؤ کا سرٹیفکیٹ پیش کر کے طعنہ ذنی کا شکار ہونے سے بچا جا سکے اور ان خوش نصیبوں کی محفل کا با عزت و احترام حصہ بن سکیں جو آنسو نہ ثپکانے والوں کی فہرست بنا کر ان کی غیرت و احساس کے جذبات پر ماتم کناں نظر آتے ہیں۔ جب معاشرہ سچے اور چھوٹے جذبات کو تصورات سے ذیادہ مادیت پرستی کے ترازو پر تولنا شروع کر دےتو شعور کا معیار گرتا ہوا محسوس ہوتا ہے کیونکہ جذبات کی پیدائش تصوراتی ہے نہ کہ مادی جس کو صرف شعور کے گھر میں تلاشا جا سکتا ہے۔ اور صد افسوس کہ ہم میں سے اکثر حواس خمسہ سے ملنے والی معلومات کو شعور کی کسوٹی پر پرکھے بنا ہی عمودی نتائج اس طرح اخذ کرتے ہیں کہ ّ آنکھ سے بہنے والے پانی کا تصور جذباتی نوعیت کی حقائق کو منظر عام پر لانے سے پہلے ہی مادیت کے پردے کے پیچھے گم کر دیا جاتا ہے۔ پھر کوئی انصاف نہں کر پاتا کہ آنکھ سے بہنے والا آنسو تھا یا فقط پانی۔

Comments